اس وقت ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہےدریاؤں کے اپنے کنارے توڑنے، تیز بارش اور برفانی جھیلوں کے پھٹنے کے ساتھ، پاکستان اس صدی کے بدترین سیلاب کا سامنا کر رہا ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس انتہائی واقعے میں کئی عوامل کارفرما ہیں،محققین کا کہنا ہے کہ یہ تباہی شاید غیر معمولی گرمی کی لہروں سے شروع ہوئی تھی۔ پا کستان میں ماہِ اپریل اور مئی کے دوران، کئی جگہوں پر طویل عرصے تک درجہ حرارت 40 ڈگری سنٹی گریڈ سے اوپر تک پہنچ گیا۔"یہ عام گرمی کی لہریں نہیں تھیں - یہ دنیا کی بدترین تھیں۔
شدید گرمی نے شمالی پہاڑی علاقوں میں گلیشیئرز کو بھی پگھلا دیا، جس سے معاون ندیوں میں بہنے والے پانی کی مقدار میں اضافہ ہوا جو بالآخر دریائے سندھ میں داخل ہو جاتے ہیں،
واضع رہے۔۔۔دریائے سندھ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے اور ملک کی لمبائی کے ساتھ شمال سے جنوب تک بہتا ہے، جو راستے میں مختلف شہروں اور زرعی اراضی کے بڑے حصے کو سیراب کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ گرمی کی لہر شدید ہونے کی وجہ سے برف کے ڈیموں سے کئی برفانی جھیلیں پھٹ گئی ہیں جو عام طور پر انہیں روکتی ہیں، جس سے پانی کا خطرناک رش جاری ہوتا ہے۔
گرمی کی لہروں نے ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی پیش کیا۔ایک ڈپریشن، یا بحیرہ عرب میں ہوا کے شدید کم دباؤ کا نظام کی غیر معمولی خصوصیات کی بنا پر پاکستان میں30 جون کو مونسون کی جلد آمد ہوئی۔اس مظہر کا اثر یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک مون سون کی مدت میں اوسطاً سالانہ تین گنا بارش میں اظافہ ہو چکاہےدوسری طرف کچھ موسمی ایجنسیوں بشمول پاک ویدر نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ جاری لا نینا موسمیاتی واقعہات میں غیر معمولی ردوبدل کا موجب بنے گا۔
پاکستان: 1986-2015 میں درجہ حرارت میں فی دہائی 0.3 ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہوا جو عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔محققین اور سرکاری عہدیداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر دیگر عوامل نے تباہی میں اضافہ کیا ہے، جس میں سیلاب کے لیے ابتدائی وارننگ کا غیر موثر نظام، ناقص آفات سے نمٹنے، سیاسی عدم استحکام اور غیر منظم شہری ترقی شامل ہیں۔
پاکستان میں اب تک تقریباً 33 ملین لوگ بے گھر ہوئے اور 1200 سے زیادہ ہلاک ہوئے ہیں۔تباہ شدہ علاقوں کے لوگوں کو فوری پناہ کی ضرورت ہے۔
تحریر: حنا حجاب (پاک ویدر)
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDelete