درخت چاہے کوئی بھی ہو لیکن درختوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، درخت انسانی زندگی کے لیئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ موسمیات تبدیلیوں اور بیماریوں سے بچنے کے لیئے درخت اللّٰہ کی طرف سے دی گئ ایک بہت بڑی نعمت ہے، ان درختوں کی وجہ سے ہی ہمیں آکسیجن ملتی ہے، ان کی وجہ سے ہی ہمیں پھل اور جانوروں کے لیئے چارہ ملتا ہے۔
نیم کے درخت کے نیچےدرجہ حرارت میں کتنا فرق آتا ہے؟
نیم کا درخت ایک جادوئی درخت ہے اس کی چھاوُں میں اگر آپ جائیں تو آپکو یقیناً چار ڈگری سینٹی گریڈ کا نمایاں فرق ملےگا، نیم طبی طور پر نہات مفید اور لاتعداد خصوصیات کا حامل ہے۔
کراچی میں اور درختوں کے ساتھ ساتھ نیم کے درخت لگائے جائیں کیونکہ کراچی کی آب و ہوا کے حساب سے چند درخت موافق ہیں ان میں سب سے سرِ فہرست نیم کا درخت ہے۔ نیم کی چھاوُں میں ایک خوشگوار تاثیر ہے جو بلا شبہ کراچی کی آلودگی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی صاف ستھری فضا قائم کرنے کیلیے نیم کا درخت یقیناً مدد گار ثابت ہوگا۔
ماحولیات آلودگی کی سب سے بڑی وجہ درختوں کی کٹائی ہے۔ درختوں کی ہی وجہ سے بارشیں اچھی اور ماحول صاف رہتا ہے۔
حدیث ہے "نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک درخت درخت لگایا اور اُس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اُس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اُس شخص کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند احمد،ج 5،ص575، حدیث:16586)
پاکستان میں نیم کا درخت کہاں پایا جاتا ہے؟
نیم کا درخت جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے. نیم کے آبائی علاقے ہندوستان بنگلہ دیش ، سری لنکا ، ملائشیا اور پاکستان ہیں۔ نیم ایک تیزی سے اگنے والا درخت ہے جس کی لمبائی 15 سے 20 میٹر (تقریبا- 50-65 فٹ) اور کبھی کبھی 35-40 میٹر (115-131 فٹ) تک بھی پہنچ سکتی ہے
پاکستان میں نیم زیادہ تر گرم اور مرطوب علاقوں میں پائے جاتے ہیں جنمیں سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ محکمہ جنگلات سندھ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عمرکوٹ، حیدرآباد اور کراچی اضلاع میں نیم کے درخت اس صوبے میں سب سے قدیم ہیں۔
نیم کے درخت اونچائی میں 15–30 میٹر (49-98 فٹ) تک پہنچ سکتے ہیں اور اس میں پرکشش گول تاج اور موٹی کھلی ہوئی چھال ہوتی ہے۔ پتیوں میں دانت دار کتابچے ہوتے ہیں اور عام طور پر سدا بہار ہوتے ہیں ۔
چھوٹے خوشبودار سفید پھول (male) ہوتے ہیں اور پتیوں کے محوروں میں جھنڈوں میں اٹھائے جاتے ہیں۔ پھل ہموار زرد سبز رنگ کا ہوتا ہے اور اس میں میٹھا ذائقہ دار گودا ہوتا ہے۔
نیم عموما بیج سے اگایا جاتا ہے لیکن نیم کو ٹہنیوں کے ذریعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ نیم کا پودا سخت اور لچکدار ہے اور ناقص ، پتھریلی زمین میں اچھی طرح اگتا ہے۔ نیم مختلف طرح کے ماحولیاتی حالات کو برداشت کرتا ہے لیکن ٹھنڈے درجہ حرارت پر یہ اپنی نشونما نہیں کرتا۔
نیم کا درخت اور اسکے استعمال
نیم کے درخت کے تمام حصے کارآمد ہیں ، اور یہ دواؤں اور کاسمیٹکس میں بھی استعمال ہوتا ہے، نیم کو عام طور پر سر اور جسمانی خشکی دور کرنے اور اسکے کے علاج کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم انسانی جلد کی حفاظت اور جلدی امراض سے بچاؤ کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
نیم برصغیر پاک و ہند میں ٹوتھ پیسٹ اور ماؤتھ واش کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، نیم کے درخت کی ٹہنی بڑے کام کی ہوتی ہے، اس سے نیم کی مسواک بنائی جاتی ہے اور پوری دنیا میں نیم کی مسواک سے اچھی کوئی مسواک نہیں مانی جاتی۔
نیم کے پتے ذیابیطس کے روایتی علاج کے طور پر طویل عرصے سے استعمال ہورہے ہیں اور کچھ ایسے طبی ثبوت بھی ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ یہ بلڈ شوگر کی سطح کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔
نیم کے بیجوں سے نکالا جانے والا تیل براہ راست کیڑوں سے محفوظ رہنے اور کیڑے مار دواؤں کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نیم کا تیل زنگ ، کالے داغ ، پھپھوندی ، خارش کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
نیم کے فریش بیج براہ راست زمین میں لگائیں ، یا انھیں مٹی کے گملوں میں یا برتنوں میں لگائیں اور تین مہینے کے بعد جب ان کی گروتھ ہوجائے تو انھیں گھر سے باہر کھلی جگہ میں لگا دیں۔
ہمیں یقیناً ترجیح نیم کے درخت کو دینی چاہیے لیکن چاہیں تو چند دیگر درختوں کو جو کراچی کی آب و ہوا کے لحاظ سے ہیں وہ بھی لگانے چاہیں جیسے برگد ، پیپل ، جنگل جلیبی ، آم ، شریفہ ، چیکو وغیرہ ، بس اصل ترغیب یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔۔
تحریر: سارہ خانزادہ